ماهنامه دارالعلوم ، شماره 4 ، جلد:
94 ، ربيع الثانى – جمادى الاول 1431 هـ مطابق اپریل 2010 ء
فتنہٴ
قادیانیت سے باخبر رہئے!
از:
مولانا نظام الدین القاسمی
مدرسہ اشرف العلوم،
ہلدوانی، نینی تال
اللہ نے انسان کو پیدا فرمایا اور پیدا
فرماکر خالی چھوڑ نہیں دیا بلکہ اس کی ہر ضرورت کے پورا
ہونے کا مکمل انتظا فرمایا، انسان چونکہ دو چیزوں کا نام ہے ایک
جسم دوسرے روح، جسم کی تعلیم و تربیت کا نظام اللہ نے عقل کے
سپرد کیا ہے،اور روح کی تعلیم و تربیت کانظام انبیاء
علیہم السلام کے، کیونکہ ہر انسان میں یہ طاقت نہیں
ہے کہ وہ براہ راست اللہ سے اس کی مرضیات ونامرضیات کا علم حاصل
کرسکے۔
اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے
کچھ مقدس ہستیوں کا انتخاب فرمایا،اور انہیں یہ روحانی
نظام عطا فرماکر اپنے بندوں کی طرف بھیجا تاکہ وہ اللہ کی مرضی
و نامرضی سے واقف ہوجائیں، اللہ کی طرف سے اس انتخاب کا نام
اصطلاح شرع میں نبوت ہے جو صرف انتخاب خداوندی ہے، بندے کے کسب ومحنت
کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ ارشاد خداوندی ہے:
اَللّٰہُ یَصْطَفِيُ مِنَ المَلاَئِکَةِ
رُسُلاً وَّمِنَ النَّاسِ. (الحج:۷۵،
پارہ:۱۷)
اللہ منتخب فرماتا ہے فرشتوں میں سے پیغمبروں
کو اور انسانوں میں سے۔
علامہ شعرانی رحمة الله عليه ”الیواقیت والجواہر“ میں لکھتے ہیں:
فَاِنْ قُلْتَ فَہَل النُّبُوَّةُ مُکْتَسَبَةٌ أَوْ
مَوْہُوْبَةٌ فَالْجَوَابُ لَیْسَتِ النُّبُوَّةُ مُکْتسَبَةً حَتّٰی
یُتَوَصَّلَ اِلَیْہَا بِالنُّسُکِ وَالرِّیَاضَاتِ کَمَا
ظَنَّہُ جَمَاعَةٌ مِن الحُمَقَاءِ. (الیواقیت
والجواہر ص:۱۶۴) وَقَدْ أَفتٰی الْمَالکیةُ
وغیرُہُمْ بکفرِ مَنْ قَالَ: اِنَّ النبوةَ مکتسبةٌ. (حوالہ بالا)
تم اگر یہ سوال کروکہ نبوت کسبی چیز ہے یا
وہبی تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبوت کسبی نہیں کہ محنت اور
کوشش سے حاصل کی جائے جیساکہ بیوقوفوں کی جماعت کا خیال
ہے۔ مالکی وغیرہ نے اس شخص کے کافر ہونے کا فتویٰ دیا
ہے جو یہ کہے کہ نبوت کسبی چیز ہے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ کوئی شخص کثرت عبادت محنت
اور مجاہدہ سے نبی نہیں بن سکتا؛ البتہ اپنی کوشش وعبادت سے
انسان ولی بن سکتا ہے، مگر افسوس ہے انیسویں صدی عیسوی
میں صوبہ پنجاب ضلع گورداسپور کے قصبہ قادیان میں پیداہونے
والے مرزاغلام احمد پر کہ وہ اپنے ولی ہونے کا جھوٹا دعویٰ تو کیا
کرتے انھوں نے صاف نبی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کردیا،
حالانکہ عقیدئہ ختم نبوت ایک سو آیات قرآنیہ اور دوسو سے
زائد احادیث نبویہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
نمونہ کے طو رپر چند آیات واحادیث ملاحظہ ہوں:
(۱) مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ
رِجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّین
. (الاحزاب:۴۰ پارہ:۲۲)
محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں
لیکن اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔
یہ آیت بطریق عبارة النص ختم نبوت کو
ثابت کررہی ہے، اور دوسری آیات سے بھی بطور اقتضاء النص
واشارة النص ودلالة النص یہ مسئلہ ثابت ہے۔
(۲) اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ
الْاِسْلاَمَ دِیْنًا. (المائدہ:۳،
پارہ:۶)
آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو پورا کردیا
اور اپنی نعمت تمہارے اوپر پوری فرمادی اور تمہارے لئے اسلام کو
پسند کیا دین ہونے کی حیثیت سے۔
جب دین مکمل ہوچکاتو نبی کے آنے کی ضرورت
بھی ختم ہوگئی۔
(۳) قُلْ یٰٓأَیُّہَا
النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا
الذِیْ لَہ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ
وَالأَرْضِ. (الاعراف:۱۵۸، پارہ:۹)
آپ فرمادیجئے کہ میں تم سب کی طرف سے اس
اللہ کا پیغمبر ہوں جس کے لئے آسمانوں اور زمینوں کی حکومت ہے۔
جب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی بعثت عام ہوچکی
سبھی لوگوں کی طرف تو اب کسی اور نبی کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح حضور صلى الله عليه وسلم نے احادیث
متواترہ میں اپنے آخری نبی ہونے کا اعلان فرمایا اور ختم
نبوت کی ایسی تشریح فرمائی کہ جس کے بعد آپ صلى
الله عليه وسلم کے آخری نبی ہونے میں کوئی شک وشبہ اور
تاویل کی گنجائش نہیں رہی۔
متعدد علماء نے ختم نبوت کی حدیثوں کے متواتر
ہونے کی صراحت کی ہے، چنانچہ حافظ ابن کثیر آیت خاتم
النّبیین کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
وَبِذٰلِکَ وَرَدَتِ الأحَادِیْثُ
المُتَوَاتِرَةُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلّی اللّٰہ علیہ
وسلم مِنْ حَدِیْثِ جَمَاعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ. (تفسیر ابن کثیر جلد۳/۴۹۳)
اور اسی ختم نبوت پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے
متواتر حدیثیں وارد ہوئیں جن کو صحابہ کی ایک بڑی
جماعت نے نقل کیا ہے۔ جن میں سے صرف دو حدیثیں یہاں
ذکر کی جارہی ہیں:
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اِنَّہ سَیَکُوْنُ فِيْ أُمَّتِیْ کَذَّابُوْنَ ثَلٰثُوْنَ
کُلُّہُمْ یَزْعَمُ أَنَّہ نَبِیُّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیّینَ لاَ نَبِیَّ
بَعْدِیْ. (ترمذی جلد۲/۴۵)
حضرت ثوبان رضى الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
میری امت میں تیس جھوٹے ہوں گے ہر ایک یہ دعویٰ
کرے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں ہی آخری نبی
ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاص قَالَ: قَالَ رَسُولُ
اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وسَلَّم لِعَلِیٍّ:
أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ
أَنَّہ
لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ (مسلم جلد۲/۲۷۸)
سعد ابن ابی وقاص رضى الله عنه سے روایت ہے کہ
حضور صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله عنه سے فرمایا کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے
جو ہارن عليه السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی،
سوائے اس کے کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں۔
اسی طرح اجماع امت سے بھی عقیدئہ ختم
نبوت ثابت ہے جیساکہ بیشمار علماء نے اس کی تصریح کی
ہے۔
ملا علی قاری شرح ”فقہ اکبر“ میں تحریر
فرماتے ہیں:
دَعْویٰ النُّبُوَّةِ بَعْدَ نَبِینَا صلی
اللّٰہ علیہ وسلم کُفْرٌ بِالاِجْمَاعِ. (شرح فقہ اکبرص:۲۰۲، بحوالہ اسلام اور
قادیانیت کا تقابلی مطالعہ ص:۷۱)
ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ
کرنا بالاجماع کفر ہے، ان تمام ثبوت کے بعد بھی بعض حریص انسانوں حسد
وجلن کی وجہ سے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے میں دریغ
نہیں کیا۔
انہی جھوٹے مدعیان نبوت میں سے ایک
(مرزا غلام احمد) ہمارے دور کے بعض انسانوں کے حصہ میں آگیا جس کی
ہمیں سختی سے تردید کرنی چاہئے، تاریخ کے مطالعہ سے
پتہ چلتا ہے کہ اکثر جھوٹے مدعیان نبوت ناکام ہوئے، مگر مرزا کا معاملہ
حکومت برطانیہ کے سہارے کی وجہ سے الگ ہے۔
مرزا نے دیگر مدعیان نبوت کی طرح اولاً
صاف صاف نبوت کا دعویٰ نہیں کیا کیونکہ ایسے
مدعیوں کا عبرتناک انجام اس کو معلوم تھا، لہٰذا اس نے بڑی
چالاکی سے تدریجی انداز اپنایا، اولاً خادم و مبلغ اسلام
کے روپ میں ظاہر ہوا، پھر اپنے کو ملہم اور مامور من اللہ بتلایا پھر
مجدد ہونے کا اظہار کیا، آگے بڑھ کر مہدی ومثیل مسیح ہونے
کا دعویٰ کیا، مزید ترقی کرکے ظلی وبروزی
نبوت کا پروپیگنڈہ کرنے لگا آخر کار اصل منزل مقصود پر پہنچ کر مستقل اور
صاحب شریعت نبی ہونے کا اعلان کرکے اپنے نہ ماننے والوں کو جہنمی
کہنے لگا۔ (ماخوذ از محاضرئہ رد قادیانیت پیش کردہ قاری
محمد عثمان صاحب منصورپوری)
قارئین کرام! اسلام کے خلاف وقتاً فوقتاً بہت سی
تحریکیں اٹھیں وہ یا تو اسلام کے نظام حکومت کے خلاف تھیں،
یا شریعت اسلامی کے خلاف لیکن قادیانیت درحقیقت
نبوت محمدی کے خلاف بغاوت اور ایک سازش ہے۔
قادیانیت کے بارے میں یہ غلط فہمی
ہوگی اسے مسلمانوں کے دینی وعلمی اختلافات اور مکاتب فکر
میں سے ایک دینی وعلمی اختلاف اور خاص مکتب فکر خیال
کیا جائے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ قادیانیت مسلمانوں
سے الگ ایک مستقل خود ساختہ مذہب ہے۔
حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں رحمة اللہ علیہ
تحریر فرماتے ہیں، قادیانی تحریک اسلام کے دینی
نظام اور زندگی کے ڈھانچے کے مقابلے میں ایک نیا دینی
نظام اور زندگی کا نیا ڈھانچہ پیش کرتی ہے، وہ دینی
زندگی کے تمام شعبوں اور مطالبوں کی خود خانہ پری کرنا چاہتی
ہے۔ وہ اپنے پیرؤوں کو جدید نبوت، جدید مرکز محبت وعقیدت،
نئی دعوت، نئے روحانی مرکز اور مقدسات نئے مذہبی شعائر، نئے
مقتدا، نئے اکابر، نئی تاریخیں اور شخصیتیں عطا کرتی
ہے۔ (قادیانیت تحلیل و تجزیہ ص:۱۴۲)
اسی وجہ سے فتنہٴ قادیانیت دوسرے
فتنوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے، یہاں ایمان
وکفر سے متعلق بھی کچھ ذکر کرنا مناسب ہے تاکہ قادیانیوں کے
بارے میں مسلمان فیصلہ کرسکیں، علامہ حموی ”شرح الاشباہ “
میں تحریر فرماتے ہیں:
الایْمَانُ تَصْدِیْقُ مُحَمَّدِ صلی
اللّٰہ علیہ وسلم فِیْ جَمِیْعِ مَا جَاءَ بِہ مِنَ الدِّیْنِ ضَرُوْرَةً، وَالکُفْرُ تَکْذِیْبُ مُحَمَّدٍ صلی
اللّٰہ علیہ وسلم فِیْ شَیْءٍ مِمَّا جَاءَ بِہ مِنَ الدِّیْنِ ضَرُوْرَةً. (حموی شرح الاشباہ/۲۴۳، بحوالہ اسلام اور قادیانیت
کا تقابلی مطالعہ/۶۲)
ایمان؛ محمد صلى الله عليه وسلم کو دین کی
ان تمام چیزوں کے بارے میں دل سے سچا قرار دینا ہے جن چیزوں
کو آپ صلى الله عليه وسلم یقینا لے کر آئے ہیں، کفر؛ محمد … کو
دین کی ان چیزوں میں سے کسی ایک چیز میں
جھٹلانا ہے جن کو یقینا حضور صلى الله عليه وسلم لے کر آئے۔
مَنْ أَنْکَرَ شَیْئًا مِنْ شَرَائِعِ الاِسْلَامِ
فَقَدْ ابْطَلَ قَوْلَ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ. (السیرالکبیر/۲۶۵، بحوالہ
تقابلی مطالعہ/۲۶۳)
جس نے اسلام کی شریعت میں سے کسی ایک
چیز کا انکار کردیا تو اس نے یقینا لاَ اِلٰہَ
اِلاَّ اللّٰہُ کے اقرار کو باطل کردیا۔
لاَ خِلاَفَ فِیْ تَکْفِیْرِ الْمُخَالِفِ فِیْ
ضَرُوْرِیَاتِ الاِسْلاَمِ وَاِنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ القِبْلَةِ . (رد المحتار کتاب الصلوٰة، بحوالہ بالا) ضروریات
اسلام کی مخالفت کرنے والے کو کافر قرار دینے میں
کوئی اختلاف نہیں اگرچہ وہ ظاہر میں اہل قبلہ میں سے ہو،
اس سے واضح ہوچکا کہ قادیانی لوگ عقیدئہ ختم نبوت (جوکہ ضروریات
اسلام میں سے بالکل واضح اور کھلا ہوا عقیدہ ہے) کا انکار کرنے کی
وجہ سے کافر ہیں۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ زندیق ہیں، کیونکہ
وہ قرآن وحدیث کے نصوص میں تحریف کرکے انہیں اپنے عقائد
کفریہ پر فٹ کرنے کی ناجائز کوشش کرتے ہیں، پس مسلمانوں کے لئے
جائز نہیں کہ وہ قادیانیوں سے میل جول رکھیں نہ ان
کے یہاں لڑکے یا لڑکی کی شادی کریں، کیونکہ
نکاح صحیح ہونے کے لئے زوجین (لڑکے اور لڑکی) میں سے ہر ایک
کا مسلمان ہونا شرط ہے اور قادیانی دائرہ اسلام سے خارج (باہر) ہیں۔
اسی طرح مسلمان نہ ان کے جنازوں میں شریک
ہوں اور نہ کسی تقریب میں، نہ ان کو اپنے یہاں کسی
تقریب میں آنے کی دعوت دیں، نہ ان کے گھر کا کھانا کھائیں
نہ ان کے ساتھ تجارت وغیرہ کا معاملہ کریں، نہ ان کا ذبیحہ (ذبح
کیا جانور) کھائیں، نہ ان کو مقابر مسلمین (مسلمانوں کے
قبرستان) میں دن ہونے دیں، وغیرذلک من الاحکام۔
حقیقت تو یہ ہے کہ قادیانیوں کا سب
سے بڑا سربراہ (مرزا غلام احمد) نبی یا ولی تو کیا ہوتا
وہ تو عام معمولی شریف انسان کے برابر بھی نہیں تھا، بلکہ
مہاکذاب انتہائی درجہ کا بدکردار انسان تھا، جیساکہ خود مرزائی
تصنیفات سے بخوبی واضح ہوتا ہے یہاں صرف اس کی زندگی
کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔
ایک طرف حدیث میں تو یہ ہے:
لَیْسَ المُوٴْمِنُ بِالطَّعَانِ وَلاَ
بِاللَّعَّانِ وَلاَ الفَاحِشِ وَلاَ البَذِیَّ. (ترمذی۲/۱۸-۱۹)
مومن نہ تو طعن و تشنیع کرنے والا ہوتا ہے نہ لعنت بھیجنے
والا نہ سخت گو نہ فحش کلام کرنے والا۔
دوسری طرف مرزا صاحب کا حال یہ ہے کہ اپنے
زمانے کے اکابر علماء ومشائخ (مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله
عليه، مولانا احمدعلی سہارنپوری رحمة الله عليه وغیرہ) کے لئے ذئاب وکلاب شیطان لعین جیسے
الفاظ استعمال کئے،اور اپنے حریف مقابل مولانا سعد اللہ لدھیانوی
کے بارے میں وہ الفاظ کہے کہ ایک شریف انسان انہیں پڑھنے،
لکھنے سے شرماجائے، عربی داں حضرات کے لئے صرف اصلی اشعار نقل کرنا
مناسب ہے:
وَمِنَ اللِّئَامِ أریٰ رُجَیْلاً
فَاسِقًا غُوْلاً لَعِیْنًا
نُطْفَةَ السُّفَہَاءِ
شَکِسٌ خَبِیْث مُفْسِدٌ وَمُزَوّرٌ لَخْسٌ یُسَمّٰی
السَّعْدُ فِیْ الجُہَلاَءِ
اٰذَیْتَنِیْ خُبْثاً فلست بِصَادِقٍ اِنْ لَمْ تمت بِالخِزْی یَا
ابْنَ بغَاءِ
(ملاحظہ فرمائیں انجام اتھم اخیر دور روحانی
خزائن ج/۱۱)
اللہ تعالیٰ فتنہٴ قادیانیت
سے تمام امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
***